1
0
Tuesday 30 Apr 2024 20:30

نیتن یاہو کے وارنٹ

نیتن یاہو کے وارنٹ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں صیہونی حکومت کے متعدد اعلیٰ عہدیداروں کی گرفتاری سے متعلق عالمی عدالت انصاف کی کارروائی کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ٹائمز اخبار نے اعلان کیا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت ممکنہ طور پر نیتن یاہو، اسرائیل کے وزیر جنگ، چیف آف جنرل سٹاف، صیہونی حکومت کے بعض سکیورٹی اہلکار اور اسرائیل کے  بعض اعلیٰ حکام کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ریاستوں کے بجائے افراد پر عدالت کی توجہ اسے بین الاقوامی عدالت انصاف کو دوسری عدالتوں سے ممتاز کرتی ہے جبکہ آئی سی جے  ریاستوں کے درمیان تنازعات کو حل کرتی ہے۔ اس وقت اسرائیل پر نسل کشی کا جو الزام  لگایا گیا ہے، وہ  جنوبی افریقہ کی طرف سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کیا گیا ہے۔

جنوبی افریقہ ان ممالک میں سے ایک ہے، جنہوں نے غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی جارحیت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ جنوبی افریقہ نے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اپنے ملک میں صیہونی سفارت خانے کو حملے بند ہونے تک اپنے ملک میں بند کر دیا ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ملکوں کی عالمی اور بین الاقوامی ذمہ داری کا تعین کرنے کی پابند ہے۔ وہ ان ذمہ داریوں اور فرائض کی وضاحت کرتی ہے، جو دوسرے فریق کو پہنچنے والے نقصانات اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور نقصانات کے معاوضے کے حوالے سے مختلف ممالک سے مربوط ہوتے ہیں۔

بلاشبہ، بین الاقوامی عدالت انصاف کو افراد کی مجرمانہ ذمہ داری کا تعین کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے اور اس عدالت کا پراسیکیوٹر جنرل اس وقت ان تمام جرائم اور جرائم کی تحقیقات کر رہا ہے، جو سات اکتوبر 2023ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری ہیں۔ جن ممالک نے نسل کشی کے جرم کے خلاف بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کیے ہیں اور صیہونی حکومت پر مقدمہ چلایا ہے، ان میں 15 عرب ممالک کے نام دیکھے جا سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کچھ ممالک بین الاقوامی عدالت انصاف کے کنونشن کے دیئے گئے، دائرہ اختیار کو استعمال کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ درحقیقت، یہی دائرہ اختیار تھا جس نے جنوبی افریقہ کو اسرائیل کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی۔

تاہم، الجزائر، مصر، عراق، اردن، کویت، لبنان، سعودی عرب اور تیونس جیسے ممالک کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اس دائرہ اختیار کے تحت جنوبی اقریقہ کا ساتھ دیں۔ دوسرے غیر عرب ممالک کو بھی اس مقدمے کی حمایت کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیئے اور عدالت کو اس سلسلے میں تمام ضروری قانونی سہولتیں اور وسائل فراہم کرنے چاہیں، تاکہ اس مقدمے میں معاونت کی جاسکے۔ ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت دنیا کی واحد مستقل بین الاقوامی عدالت ہے جس کے پاس جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد پر مقدمہ چلانے کا اختیار ہے۔ عدالت کے پاس اپنی پولیس فورس نہیں ہے، لیکن وہ اپنے جن 124 ارکان پر انحصار کرتی ہے۔ ان میں زیادہ تر یورپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کو عدالتی احکامات میں نامزد افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

اسرائیل بین الاقوامی فوجداری عدالت کا رکن نہیں ہے اور اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا، تاہم فلسطین کو 2015ء میں رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ غزہ پر حملے کے آغاز کے بعد سے تقریباً سات ماہ کے دوران اسرائیل اپنے حملوں میں 34 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ اس نے زمینی، فضائی اور سمندری راستے سے 77 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک اور زخمی کیا ہے۔ اس حملے نے غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے بیشتر کو بے گھر بھی کیا ہے اور ایک انسانی بحران المیہ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو حکومت پر غزہ میں جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اب تک، عدالت نے غزہ کے تنازعات سے متعلق 32 مجرمانہ تحقیقات اور تقریباً 500 ابتدائی تحقیقات کی ہیں۔ توقع ہے کہ موجودہ جنگ پر ہزاروں تحقیقیں کی جائیں، جو کہ موجودہ تحقیقوں سے کہیں زیادہ لمبی اور بڑی ہوں گی۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت  کے پاس نیتن یاہو کو پھنسانے اور صیہونی حکومت کی کابینہ پر مکمل دباؤ میں ڈالنے کے لئیے ایک دلیل یہ ہے کہ  اسرائیل نے انسانی امداد کی بروقت فراہمی کو روکا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کی بنیاد پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کریم خان (کریم اسد احمد خان) نے انسانی امداد کے میدان میں اسرائیل کی کارکردگی پر تنقید کی اور کہا کہ اسرائیل جان بوجھ کر ضروری امداد کی آمد کے عمل کو سست کرکے نیز اس میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ غزہ کی پٹی کو سامان نہ پہنچنے دینا "جنگی جرم" کی ایک مثال ہوسکتی ہے، جس سے ہیگ کی عدالت صیہونی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ اسرائیل نے ہیگ کی عالمی عدالت کی درخواست کے باوجود ضروری سامان کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ اسرائیل نے جنگ کے بارے میں تحقیقات اور بعض حساس مقامات پر حملوں کے حوالے سے رازداری سے کام لیا۔

نتیجے کے طور پر، ہیگ کی عالمی  عدالت نے استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے خفیہ دستاویزات اور شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کو  قبول کر لیا ہے اور اسے یقین ہوگیا ہے کہ نیتن یاہو جنگی جرائم کی بنیاد پر حراست میں لیے جانے کا مستحق ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کے اجراء کو روکنے کی مسلسل کوششوں کے باوجود دنیا بھر کے بہت سے تجزیہ کاروں کو اس وارنٹ کے جاری ہونے کی امید ہے۔ وارنٹ گرفتاری صرف نیتن یاہو پر ختم نہیں ہوں گے بلکہ اس میں وزیر جنگ اور آرمی چیف آف سٹاف بھی شامل ہوں گے۔ اگر یہ وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں تو عالمی سیاست میں یہ اقدام ایک بے مثال زلزلہ سے کم نہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1132257
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Md Jawaid Alam
India
Bilkul giriftar karana chahiye
ہماری پیشکش