0
Wednesday 1 May 2024 05:02

یکم مئی۔۔ یوم مزدور، استحصال کیخلاف آواز بلند کرنے کا دن

یکم مئی۔۔ یوم مزدور، استحصال کیخلاف آواز بلند کرنے کا دن
تحریر: ارشاد حسین ناصر

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے، اس روز اکثر ممالک میں عمومی چھٹی ہوتی ہے، مزدور تنظیمیں، یونینز اور سماجی و سیاسی گروہ اس دن کی مناسبت سے جلسے، جلوس، ریلیاں اور سیمینارز منعقد کرکے مزدوروں کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کیا جاتا ہے۔ مصور پاکستان عظیم فلسفی حضرت علامہ محمد اقبال ایک جہاندیدہ انسان تھے۔ وہ اپنے کلام میں اپنے دور کے حالات و واقعات کیساتھ ساتھ تاریخ کے بہت سے اہم سانحات کو بھی جگہ دیتے ہیں۔ یوم مزدور کے عنوان کو بھی انہوں نے اپنی معروف کتاب بال جبریل کی نظم "لینن خدا کے حضور میں" اس شعر میں مخاطب کیا ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات


اے خدا میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تو قادر مطلق بھی ہے اور سب کے ساتھ انصاف کرنے والا بھی ہے، لیکن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مزدور کی زندگی بہت مشکل ہے، یارب کیا مزدور کی زندگی کو کبھی قرار بھی ملے گا، تاکہ وہ اپنی گزر بسر کے ساتھ ساتھ تیری عبادت بھی سکون سے کرسکے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیں مزدوروں کے اس دن کی یاد دلاتا ہے، جب انہوں نے اپنے حقوق کی آواز بلند کی اور عظیم قربانی سے دنیا کو اس دن کو منانے اور انہیں یاد رکھنے پہ مجبور کر دیا۔ جب دنیا صنعتی انقلاب کی طرف ترقی کر گئی تو صنعتی مزدوروں نے اپنے مطالبات کیلئے تحریک چلائی، اسی تحریک میں ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے اوقات کار میں زیادہ سے زیادہ 8 گھنٹے کام لیا جائے۔

یکم مئی 1886ء کو شکاگو کے مزدوروں نے اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لئے ایک عظیم الشان مظاہرے کا اہتمام کیا، لیکن پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں مزدور ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ یوں 2 مئی سے 6 مئی تک شکاگو کے تمام کارخانوں میں ہڑتال رہی اور مظاہروں اور جلوسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت نے مزدوروں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے 8 مزدور رہنماؤں کو پھانسی دیدی، جس سے تحریک میں اور شدت پیدا ہوگئی۔ مزدور رہنماؤں کی قربانی کے نتیجے میں امریکی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا اور مزدوروں کے اوقات کار 8 گھنٹے مقرر کرنے پڑے۔ اس طرح اس دن کی نسبت سے آہستہ آہستہ یکم مئی کا دن شکاگو کے مزدوروں، شہیدوں کی یاد میں ہر سال منایا جانے لگا اور اس دن نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی۔

دنیا بھر کی طرح ہر سال یکم مئی کو پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستان کے تمام محنت کش دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں، جو ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے یکم مئی 1886ء کو قتل ہوئے تھے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں مزدور کی کم از کم اجرت ہر سال سالانہ میزانیہ میں معین کی جاتی ہے، مگر اس پر عمل درآمد کہیں نہیں ہوتا۔ پرائیویٹ کمپنیز سے لیکر صنعتی یونٹس تک اور گورنمنٹ کے اداروں میں عارضی ملازمین سے لیکر مذہبی و دینی اداروں مں بھی مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے، مگر یکم مئی کو تمام سیاسی و سماجی رہنما، دینی و مذہبی جماعتوں کے قائدین و رہنماء محنت کشوں کی ریلیز، سیمینارز، کانفرنسز اور آج کل ٹی وی چینلز پر بیٹھ کے بھاشن دیں گے۔

مگر جب بااختیار ہونگے یا اپنے ذاتی کاروبار میں مزدوروں کو سرکاری سطح پر معین کردہ کم از کم اجرت کے قانون کو پائوں تلے روندتے نظر آئیں گے۔
ہمارا جینا آسان ہو جائے، امیر شہر جو مہربان ہو جائے
حق ملنے لگے حق داروں کو، ختم یہ امتحان ہو جائے

آج معاشرہ کا ہر طبقہ اپنے سے اوپر والے طبقہ کے استحصال کا شکار ہے، ہم عام طور پر ایسے رویوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک گاڑی والا موٹر بائیک والے کو حقیر سمجھ کر روڈ پر چلتے ہوئے حقیر سمجھ رہا ہوتا ہے، موٹر بائیک والا رکشہ اور ریڑھی والے پر اپنا رعب جھاڑتا ہے۔ یہ ایک رویہ ہے، جو عام طور پر نظر آتا ہے۔ اس رویہ کا سلسلہ اوپر تک جاتا ہے، سرکاری، غیر سرکاری سمیت ہر جگہ ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ محنت کش و مزدور اپنا حق نہیں لے پاتے، اس لیے کہ وہ استحصالی نظام کا خود حصہ بن جاتے ہیں۔

ہم ایک اسلامی جمہوری مملکت کے شہری ہیں، جہاں ایک آئین و دستور کے تحت نظام مملکت و حکومت چلتے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کی اس آئین و دستور و قانون کو طاقتوروں نے ہمیشہ پامال کیا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ دستور، آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا حکمرانوں و طاقتوروں کا عمومی رویہ ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ سے انصاف ناپید ہوچکا ہے، انصاف و عدل کی عدم فراہمی اور نظام انصاف سے اعتماد کا اٹھ جانا بذات خود ایک بہت بڑا المیہ ہے، اگر عدل قائم ہو، انصاف ہوتا نظر آئے تو لوگ اپنے حقوق کی جنگ و جدوجہد میں پر امید ہونگے، مگر یہاں چونکہ لوگ انصاف و قانون سے طاقتوروں کے ہاتھوں کھلونوں کی طرح کھیلتے دیکھتے ہیں تو ان کا اس نظام سے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد کرنا بھی ایک فضول اور وقت کا زیان عمل سمجھتے ہیں۔

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ جن مزدوروں کے نام پر یہ دن تزک و احتشام سے منایا جا رہا ہوتا ہے، وہ اس دن بھی اپنی روٹی روزی کے چکر میں مزدوروں کے اڈوں پر اپنی دستیابی ممکن بناتے ہیں۔ وہ ایک دن کی چھٹی کا رسک نہیں لے سکتے، انہیں یہ عیاشی برداشت نہیں ہوتی۔
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

ہم نے جس ماحول میں پرورش پائی، اس میں اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ مزدور، غریب اور محنت کش کا حق دبا جاتے ہیں تو ان کی آنکھوں، ان کے دل، ان کا پٹھا لباس، ان کے مٹی میں اٹے جوتے بہت کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ہر ایک محسوس نہیں کرتا۔
یوں نہ جھانکو، غریب کے دل میں
یہاں حسرتیں بے لباس ہوتی ہیں
خبر کا کوڈ : 1132362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش